Friday, April 19, 2013

جامعہ میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام انٹر یونیورسٹی تحریری و تقریری مقابلوں کا انعقاد



(تصویر میں دائیں سے :پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر جی پی شرما، پروفیسر وہاج الدین علوی، جناب سید فیصل علی، پروفیسر اخترالواسع اور پروفیسر خالد محمودانعام یافتگان کے ساتھ)



ٹیگور نے مشرق و مغرب کی خلیج کو ختم کیا۔ ٹیگور کا آفاقی تصور سب سے جدا اور نرالا ہے۔ اس نے زندگی کے حسن کے مختلف رنگوں کو اپنی تخلیقات میں سمویا ہے۔ ہندوستان جیسے مشترکہ تہذیب اور کثیر المذاہب ملک میں ٹیگور کو پڑھنا اور جاننا ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار’’سہارا اردو‘‘ کے سربراہ سید فیصل علی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ ٹیگور انٹر یونیورسٹی تحریری و تقریری مقابلوں کے انعقاد کے موقع پر بطور مہمان خصوصی کیا۔ سید فیصل علی نے فرمایا کہ یہ خوشی اور حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان سے زیادہ بیرون ممالک میں ٹیگور کے ماہرین موجود ہیں۔ شعبہ اردو میں ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت ٹیگور شناسی اور ٹیگو رفہمی اور ان کے تراجم کا جو کام جاری ہے، وہ لائق تحسین اور قابل مبارکباد ہے، کیونکہ علم کو وسعت دینا لازمی ہے۔ اپنی حدوں سے اور احاطے سے باہر نکل کر مطالعہ کرنا دور جدید کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ تبھی نئی نسل عملی زندگی میں کامیاب و کامراں ہوسکتی ہے۔ اس موقع پرڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز پروفیسر جی پی شرما نے بھی بطور مہمان خصوصی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقابلوں سے طلبا میں بہتر سے بہتر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ مقابلے کا ہنر طلبا کو زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ بلا شبہہ انعامات بیش قیمت ہیں لیکن مقابلے میں حصہ لینا کہیں زیادہ بہتر ہے۔تقسیم انعامات کے موقع پر پروفیسر اخترالواسع نے فرمایا کہ جامعہ سے ٹیگور کا رشتہ قدیم ہے۔ ٹیگور کے ذریعے ایک سیکولر جمہوری ملک میں ہمارا رشتہ دوسری زبانوں اور دوسری تہذیبوں سے قائم ہوا ہے۔ یہ پروجیکٹ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔ ٹیگور کے ذریعے ہمیں ملک کی دوسری تہذیبوں کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ پروفیسر خالد محمود نے فرمایا کہ یہ تحریری و تقریری مقابلہ نہایت کامیاب و شاندار رہا۔ طلبا و طالبات کے شاندار مضامین اور ان کی تقریریوں کو سن کر بے حد خوشی ہوئی۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ نئی نسل اردو سے دور ہے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نئی نسل زیادہ حساس ، ذی شعور، ذی فہم اور کثیر المطالعہ ہے۔ ٹیگور ریسرچ انیڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے سارے پروگرام کا انعقاد نہایت شاندار اور سلیقے سے ہوا ہے۔ یہ مقابلہ بھی اپنی نوعیت کا منفرد اور خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ صدر شعبہ اردو پروفیسر وہاج الدین علوی نے صدارتی خطبے میں فرمایا کہ اس مقابلے میں سبھی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات اور ریسرچ اسکالر ز کو دعوت دی گئی تھی۔ نئی نسل کے ہاتھوں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ ہمیں بے حد خوشی ہے کہ جن طلبا نے ان مقابلوں میں حصہ لیا وہ اچھی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ مستقبل میں ان سے اچھی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ اہم نہیں کہ انعام کسے ملا اور کسے نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ایک حوصلے کے ساتھ سبھی طلبا اور ریسرچ اسکالر نے ان مقابلوں میں حصہ لیا۔ ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت منعقد ہونے والے پروگرام کی یہ آخری کڑی تھی۔ نئے سیشن میں نئے پروگرام ہوں گے جن میں طلبا کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کی جائے گی۔ پروگرام کی نظامت ٹیگور پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹرپرو فیسر شہزاد انجم نے فرمائی اورسبھی انعام یافتگان اور شرکا کو مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے سبھی مہمانوں ، اساتذہ اور طلبا و طالبا ت کی شرکت پر شکریہ بھی ادا کیا۔ جلسے کا آغاز حافظ محمد جہانگیر اکرم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔واضح ہو کہ شعبہ اردو کے زیر اہتمام ۲۰ مارچ کو زمرہ اول کے تحت بی اے اور ایم اے کے طلباکو ’’ ٹیگور کی ادبی خدمات‘‘ اور زمرہ دوم کے تحت ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کو ’’ٹیگور اور ان کے معاصرین‘‘ پر مقالہ لکھنے کی دعوت دی گئی تھی جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلبا نے بھی حصہ لیا۔ تحریری مقابلوں کے زمرہ اول میں محمد نصر اقبال ، جاوید عالم اور بدرالہدی نے بالترتیب پہلی ، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ عمران عاکف خاں اور محمد ریحان کو خصوصی انعامات سے نوازاگیا۔ زمرہ دوم میں محمد طیب علی، درخشاں اور فیضان شاہد کو بالترتیب پہلے ، دوسرے اور تیسرے انعام کا مستحق قرار دیا گیا جبکہ خالد حسن اور سلمان فیصل کو خصوصی انعامات سے نوازاگیا۔ ۲۱ ؍ مارچ کی صبح منعقد ہونے والے تقریری مقابلے میں سید محمد ثاقب فریدی کو اول ، محمد طیب علی کو دوم اور عارف اقبال کو سوم انعام کا مستحق قرار دیا گیا جبکہ محمد ممتاز عالم اور فیصل نذیر کو خصوصی انعامات سے نوازا گیا۔ واضح ہو کہ ہر زمرے میں پہلے انعام کے لیے پانچ ہزار روپے، دوسرے انعام کے لیے تین ہزرا روپے، تیسرے انعام کے لیے دو ہزار روپے اور خصوصی انعامات کے کے لیے ایک۔ایک ہزار روپے نقد اور سرٹیفکٹ کے علاوہ پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر شہزاد انجم کی مرتبہ کتاب ’’رابندر ناتھ ٹیگور : فکر و فن‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ اس موقع پر پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر عراق رضا زیدی، ڈاکٹر احمد محفوظ، ڈاکٹر کوثر مظہری، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، ڈاکٹر ندیم احمد(کنوینر تحریری و تقریری مقابلہ) ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹرسرورالہدی ،ڈاکٹر خالد مبشر ، ڈاکٹر انوار الحق، ڈاکٹر مشکور معینی، ڈاکٹر حافظ محمد عمران اور کافی تعداد میں طلبا وطالبات و ریسرچ اسکالرز موجو د تھے۔