Saturday, January 29, 2011

ریسرچ اسکالرز سمینار




ہندستان میں علم و دانش کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے آپ اپنی محنت اور صلاحیت سے تحقیق و جستجو کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرز سمینار میں زاہدہ حنا کا اظہار خیال




آپ اپنی محنت اور صلاحیت سے تحقیق کے نئے دروازے کھول سکتے ہیں ۔کمروں میں بیٹھ کر تحقیق کا حق نہیں ادا کیا جاسکتا ہے ۔اس کے لیے آپ کو لائبریروں اور دانش گاہوں کی خاک چھاننی ہوگی ان خیالات کا اظہار مشہور فکشن رائٹر زاہدہ حنا نے شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالرز سمینار کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر کیا ۔افتتاحی اجلاس کی صدارت اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین پروفیسر اخترالواسع نے فرمائی ۔پروفیسر مختار شمیم مہمان اعزازی کے طور پر شریک ہوئے ۔نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے کی ۔زاہدہ حنانے کہا کہ ہندستان ایک وسیع و عریض ملک ہے یہاں علم ودانش کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے ۔نئے موضو عات کے ساتھ ساتھ ادب و تہذیب کے بہت سے موضوعات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔افتتاحی اجلاس میں شعبہ کے دو اسکالر صفوان صفوی (نثر آزاد کی شعریت :غبار خاطر کے حوالے سے )اور سلمان فیصل (آزادی کے بعد دہلی کے ادبی رسائل )نے مقالے پڑھے ۔ان کو سننے کے بعد زاہدہ حنانے کہا کہ ان اسکالروں نے جس اعتماد اور خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے اپنے موضوعات کا احاطہ کیا ہے اس سے شعبۂ اردو ہی نہیں بلکہ اردو کے خوش آیند مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے ۔زاہدہ حنا نے کہا کہ نئی نسلوں کو اسی انداز میں تربیت کی ضرورت ہے اس کے لیے انھوں نے شعب�ۂ اردو کی کوششوں کو بطور خاص سراہا ۔پروفیسر خالد محمود نے مہمانوں اور حاضرین کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ شعبۂ اردو میں تدریس کے ساتھ طلبا کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھا جاتاہے۔پروفیسر مختار شمیم نے کہا کہ ان دنوں تحقیق و تنقید کابیشتر سرمایہ تن آسانی کا شکار ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ شعبۂ اردو کی ان کوششوں سے تحقیق کا درجہ بلند ہوگا ۔ڈاکٹر اقبال مسعود نے کہا کہ شعبے کی یہ اچھی روایت ہے اس کے اساتدہ اور طلبہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ صدارتی خطاب میں پروفیسر اخترالواسع نے کہاکہ یہ سمینار علم وادب کی تحقیق کے لیے فال نیک ہے ۔ان دنوں جبکہ بازار کی قوتیں تعلیمی اداروں کو اپنی گرفت میں لیتی جارہی ہیں اور تعلیم بے چہرہ ہوتی جارہی ہے بعید نہیں کہ تعلیمی ادارے آئندہ تحقیق کے مرکز کے طور پر ہی باقی رہیں ۔پروفیسر شہپر رسول نے زاہدہ حنا کا تعارف پیش کیا انھوں نے بتایا کہ ادب و صحافت دونوں حوالوں سے زاہدہ حنا کا نام بہت معتبر ہے ۔افسانے ،ناول اور ڈرامے کے ساتھ ساتھ میڈیا سے ان کی غیر معمولی وابستگی رہی ہے ۔سمینار کے کنوینر ڈاکٹر شہزاد انجم نے سمینار کی غرض وغایت اور جامعہ کے عام ادبی و علمی ماحول پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس کا مقصد جامعہ میں علم و دانش کی روایت اور طلبہ میں ادبی ذوق و جستجو کو پروان چڑھانا ہے ۔افتتاحی اجلاس کے موقع پر پروفیسر مختار شمیم کی کتاب سواد حرف اور ڈاکٹر شہزاد انجم کی معاصراردو افسانہ اور ذوقی کا زاہدہ حنا کے دست مبارک سے اجرا کیا گیا ۔ابتدا میں پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے پھولوں کے گلدستے سے زاہدہ حنا کااستقبال کیا ۔افتتاحی اجلاس کا آغاز شہنواز فیاض کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔

ریسرچ اسکالرز سمینار میں مقالات کے تین اجلاس ہوئے جس میں ریسرچ اسکالرز نے مقالے پڑھے ۔صدارت اور نظامت کے فرائض بھی ریسرچ اسکالرز نے ہی انجام دیے ۔اس سمینار میں شوکت علی (عظیم آباد کی خانقاہوں کی شعری خدمات )نوشین حسن (اردو انشائیہ نگاری )محمد جلال الدین (اردو فکشن اورفلم )عزیز احمد خاں (فراق گورکھ پوری کی مکتوب نگاری )فخر عالم (گؤدان اور گودان کا تقابلی مطالعہ)،ذکیہ رخشندہ (ہندستان کی تحریک آزادی میں اردو کا حصہ)شاکر علی صدیقی (مومن خاں مومن کی غزل کا تجزیہ )محمد یوسف وانی (اکتشافی تنقید اور حامدی کاشمیری )زمرد مغل (میر سائنسی توضیحات کی روشنی میں )کے مقالے پڑھے ۔جاوید حسن،خالد مبشر،محمد منظر علی نے صدارت کے فرائض انجام دیے جبکہ محمد آدم ،رئیس فاطمہ،نوشاد منظر اور سلمان فیصل نے مختلف اجلاس کی نظامت کی ،آفتاب احمد، شہنواز حیدر اور ساجد ذکی فہمی نے شکریہ اداکیا۔مختلف اجلاس میں سوال وجواب اور بحث و مباحثہ میں ڈاکٹر کوثر مظہری ،ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی ، مقیم احمد، شاکرعلی اور نزہت نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب اور ڈاکٹر سرورا الہدی نے طلبا وطالبات کی حوصلہ افزائی کی۔ آخر میں ریسرچ اسکالرز سمینارکے کنوینر ڈاکٹر شہزاد انجم نے سبھی مہمانوں ، ریسرچ اسکالرز اور طلبا و طالبات کا شکریہ ادا کیا۔سمینار میں حلیمہ فردوس ،قرۃ العین، ریاض ثاقب، عبدالکریم رضوان، ابوہریرہ ،شبنم، انجم جمال، صبا انجم، ثمرین، غزالہ شیرین، زاہد احسن، اقرا سبحان، تبسم، عبدالرزاق، سبا ماہم سمیت کثیر تعداد میں طلبا و طالبات موجود تھے

Sunday, January 16, 2011

ایک چراغ اور گل ہوا



علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی معروف شخصیت شعبہ انگریزی کی سابق پروفیسر اور منفرد شاعرہ،ادیبہ محترمہ زاہد ہ زیدی اب اس دنیامیں نہیں رہیں
اردو اور انگریزی میں متعدد شعری مجموعوں اورتنقیدی مضمامیں کے مجموعوں ،ناولوںاور ڈراموں کی تخلیق کار اپنا ادبی سرمایہ اردو ادب کے سپرد کر کے رخصت ہوگیں ۔ ان کو بہت سے ادبی ایوارڈ بھی ملے تھے۔ میرا ان سے بچپن سے ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ میں ان کو زاہدہ خالہ کہتی تھی، ان سے میں نےشاعری ،ادب اور ڈرامے کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری یادوں کے البم میں ان کی ان گنت تصاویر ہیں۔ مشاعروں میں نظمیںسناتی، علی گڑھ یونیورسٹی کے ویسٹرں ڈرامہ کلب کےلیے ڈرامے ڈایکیرٹ کرتی۔ اپنے شاگردوں سے محبت کرتی ۔ بےایمانیوں اور بد عنوانیوں پر غصہ ہوتی ہویی اور اپنے چھوٹے سے خوش ذوقی سے سجے ہوئے فلیٹ میں اپنی کتابوں ، اور رسالوں میں گھری ہویی
وہ میری امی_سیدہ فرخت کے بچپن کی دوست تھین، میرے سارے بہن بھاییوں سے خآص تعلق خاظر تھا]میری شاعری اور افسانہ نگاری پر انکے بے لاگ تبصرے مجھے بہت عزیز ہیں۔ جب انھون نے میر ے افسانوں کے مجموعے آنگن جب پردیس ہوا کی دل کھول کر تعریف کی تو میں بہت خوش ہویی تھی کیونکہ زاہد ہ خالہ یوں ہی تعریف نہین کرتی تھین

اگرکہا جاِیے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی اد ب تھا تو غلظ نہ ہوگا
انھون نے چیخوف کے ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ اور انکو علی گڑھ میں اسٹیج بھی کیا تھا
جب ویسٹرن ڈرامہ کلب کی طرف سے وہ انگریزی یا دوسری زبانوں سے ترجمہ کردہ ڈرامے یونیورسٹی کے کینڈی ہال میں اسٹیج کرنا چاہیی تھین تو یونیورسٹی کے ڈرامہ کلب والوں کو اعتراض ہوتا تھای کہ ویسڑن ڈرامہ کلب کو صرف انگریزی مین ڈرامے کرنے کی اجازت ہے۔ اردو کے ڈرامے تو دوسرا ڈرامہ کلب ہی کرسکتا ہے
کیی ڈرامے انھون نے خود اپنے گھر مین اورایک ہمارے گھر "فرحت کدہ" میں اسٹیج کیا تھا
ان ڈراموں کے سارے اخراجات وہ خود ہی اٹھاتی تھین
زاہدہ خالہ کے ساتھ ایک دور ختم ہوگیا۔ ہماری یادوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اپنی منعدد کتابوں میں زندہ ہیں۔ان کی ادبی خدمات پر تو ایک پورا ایک مضمون درکارہے ۔اس وقت تو قلم برداشتہ انکی یاد میں کچھ بے ربط سی باتیں ہی ممکن ہیں
آج وہ اس وقت علی گڑھ میں سپرد خاک ہوگیی ہوں گی۔ ان کی ایک بہت پرانی غزل کا ایک شعر مجھے بہت پسند ہے جوانکے اولین مجموعہ کلا۔ "زہر حیات" کے آخری صفحے پر ہے
سنا رہی ہیں وفا کی راہیں شکست پرواز کا فسانہ
کہ دور تک وادیء طلب میں پڑے ہیں ہر سمت خواب ٹوٹے