Sunday, December 16, 2012


سہ روز قومی سمینار ’’ابن صفی: فن و شخصیت ‘‘اختتام پذیر





نئی دہلی۔16؍دسمبر۔

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ بہ اشتراک اردو اکادمی، دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ سمینار ’’ابن صفی: فن و شخصیت‘‘ کے تیسرے دن کے تیسرے اجلاس کی ابتدا صبح ساڑھے دس بجے ہوئی جس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر ایم۔ اے۔ ابراہیمی نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر احمد محفوظ نے انجام دیا۔ابن صفی سے متعلق اس یادگار سمینار کے اس اجلاس کا پہلا مقالہ ڈاکٹر عمران عندلیب نے پیش کیا جس میں انھوں نے ابن صفی کی شاعری اور نثری تحریروں میں تلذذ آمیزی کے اثرات کی نشاندہی اس انداز سے کی کہ قاری اور قلم کار کے فہم اور ان کے ادراک کے وہ گوشے سامنے آجائیں جو مطالعہ کرتے ہوئے اکثر لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔ شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالروں اقرا سبحان اور محمد عثمان نے اپنے پرچوں میں ابن صفی کے ان کرداروں کی تلاش کی جو طالب علموں کے لیے ان کی زندگی اور حالات کے موافق ہوں اور ان کے علم میں اضافہ کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کانپور سے تشریف لائے خان احمد فاروق نے اپنے مقالے ’’ابن صفی ماورائے اسرار‘‘ میں ابن صفی کی تحریروں کے رموز پر اور ان کی نفسیاتی پرتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان رازہائے پنہاں کی عقدہ کشائی فرمائی جو عموماً مطالعہ کرتے ہوئے سیدھے طور پر قاری کے اوپر روشن نہیں ہوتیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ابن صفی کی تحریروں کو ادبِ عالیہ میں کوئی جگہ حاصل نہیں ہوسکی ہے تو کیوں نہ ہم ان کو ہائی پاپولر لٹریچر سے تعبیر کریں۔ اردو زبان کے رموز وکنایات سے گہری واقفیت رکھنے والے مختار ٹونکی نے اپنے مقالے میں بتایا کہ ابن صفی کی حیثیت تھری اِن ون کی ہے۔ شعریات و مضحکات اور جاسوسیات میں ابن صفی نے انفرادی اور نمایاں سنگِ میل نصب کیے ہیں۔ ابن صفی اسرار احمد کی ناول نگاری کے طوفان کی ابتدا الٰہ آباد سے ہوئی اور اختتام کراچی پاکستان میں ہوا۔ مقالے کا زیادہ تر حصہ مقفی اور شعری آہنگ لیے ہوئے تھا جس میں ضرب الامثال کی کثرت نے چار چاند لگائے اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ انھوں نے ابن صفی کے ایک مضمون ’’قواعدِ اردو‘‘ کو خاص طور پر اپنا موضوع بنایا جو شوخی و ظرافت کا بہترین خوشہ ثابت ہوا۔ معروف صحافی سہیل انجم نے ’’تزک دو پیازی‘‘ کے تعلق سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ابن صفی راسخ العقیدہ ہوتے ہوئے بھی اسلام کے نام پر سامنے آنے والے فریب دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے ۔ انھوں نے شوہر و بیوی اور آدمی اور عورت کے سماجی اور غیرسماجی رشتوں کو ابن صفی کے زاویۂ نظر اور سماجی دور بینوں کے ذریعہ تلاش کرتے ہوئے سبق آموز نتائج برآمد کیے۔ ایک دوسرے صحافی لئیق رضوی نے اپنے مقالے بہ عنوان ’’ابن صفی کے منفی کردار‘‘ میں پرزور انداز میں کہا کہ منفی کرداروں کی تخلیق کی تحریک اور وجوہات کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کرداروں کے ارتقائی مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے عبرت ناک و نصیحت آمیز نتائج سے آگاہی کا اظہار موثر انداز میں کیا۔ پونہ سے تشریف لائے قاضی مشتاق احمد نے اردو فکشن میں ابن صفی کی معنویت تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ بقول ابن صفی فرار ہی انسانی اور سماجی ترقی کی ضمانت ہے۔ حالات میں تبدیلی لانے کے لیے قانون کا احترام لازم ہے یہی ابن صفی کا مقصد تھا۔ ابن صفی نے کہا ہے کہ میری کتابیں چاہے الماریوں کی زینت نہ بنیں لیکن تکیے کے نیچے ضرور پائی جاتی رہیں گی کیوں کہ میں نے جو میڈیم اختیار کیا ہے وہ عوام الناس کی فہم اور ضرورت کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابن صفی کے تعلق سے شاعری میں بات کریں تو ایک شعر کافی ہے: ’’جو ہوسکے تو ہمیں پائمال کرتا جا151 نہ ہوسکے تو ہمارا جواب پیدا کر‘‘ بھوپال سے آئے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے اپنے مقالے کا ماحصل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سائنٹفک ایجادات اور سماجی سروکار سبھی ابن صفی کا موضوع بنے اور انھوں نے تقریباً تمام مسائلِ زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں خیروشر کی جنگ میں خیر کی فتح اور سرخ روئی کو ترجیح دی ہے جو ہمیں حق شناسی اور حق پرستی کی ترغیب دیتی ہے۔اس اجلاس کے صدر ڈاکٹر ایم۔ اے ابراہیمی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی، دہلی اور شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ابن صفی کے اعتراف کی ایک تاریخی بنیاد ڈالی۔ میں بھی سنہ 65ء سے 75ء تک ابن صفی کو پڑھتا رہا ہوں۔ آج کے مقالہ جات میں میری سب یادیں تازہ ہوگئیں۔ ابن صفی کے ہر کردار میں نیا پن ہے اور وہ خاص ڈائرکشن کے تحت سامنے آتا ہے۔ ابن صفی نے جرائم سے پاک سماج پیدا کرنے کا مشن اختیار کیا تھا۔ پروفیسر عبدالحق نے اپنے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے مقالہ نگاروں نے مختلف النوع عنوانات پر فکر انگیز مقالے لکھے جن میں مجھے تازگی کا احساس ہوا کیوں کہ ان میں متن شناسی کے گوہر سامنے آئے۔ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اس سمینار کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زندگی کی اردو کی تاریخ کی ایک یادگار اور روشن تقریب کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ ہم اس طرح سمجھ لیں کہ جس طرح انگارے پر بہت سی پابندیوں کے باوجود پروفیسر محمدمجیب نے رسالہ ’’جامعہ‘‘ میں تنقیدی تبصرہ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ادب شاید مستقبل میں ہمارے لیے راہ نما ثابت ہوگی، اسی طرح یہ سمینار ہے جو جامعہ کی اردو ادب میں نئی روایت قائم کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ ادب کو ادبِ عالیہ اور پاپولر ادب کے ذیل میں جاننا اور پرکھنا فریبِ نظر ہے، اصل شے تخلیق ہوتی ہے۔
اس سمینار کا چوتھا اجلاس دوپہر بعد پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق، پروفیسر محمد شاہد حسین اور پروفیسر شہزاد انجم کی صدارت میں منعقد ہوا جس کی نظامت ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے کی۔ اس اجلاس میں ریسرچ اسکالر زمرد خاں نے اپنے پرچہ میں کہا کہ مشرقی تہذیبوں کو آئندہ سفر کی منزلیں چین کی سربراہی میں طے کرنی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا ابن صفی کے چار ناولوں کا ترجمہ کرنا ایک بڑے آدمی کا دوسرے بڑے آدمی کے تئیں احساسِ اعتراف و افتخار کا اظہار ہے۔جناب شعیب نظام نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’ابن صفی انور رشیدہ سیریز کے حوالے سے‘‘ پیش کیا جس میں انھوں نے ان دونوں سیریز کے مرکزی محوروں پر روشنی ڈالی اور کرداروں کی برتری اور ابتری کا خوبصورت جائزہ پیش کیا۔ پروفیسر شافع قدوائی نے بہ عنوان ’’قرأت مسلسل کا استعارہ ابن صفی‘‘ اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے ابن صفی کی ہردلعزیزی اور عوامی مقبولیت کے اسباب تلاش کرنے کے ساتھ اس کی قرأت کے طلسم یعنی ان تحریروں کے سرمۂ نظر بنانے کے جادو پر روشنی ڈالی۔ اس اجلاس کا آخری مقالہ پروفیسر علی احمد نے پیش کیا جس کا عنوان ’’عوامی ادب کی شعریات ابن صفی کے حوالے سے‘‘ تھا جو بہترین ثابت ہوا اور اس مقالہ کے بین السطور میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ابن صفی کو ادبِ عالیہ میں شامل کرنے کے لیے ابھی تک خود کو تیار نہیں کرپائے ہیں۔مجلسِ صدارت کے چاروں ارکان پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق، پروفیسرمحمدشاہد حسین اور پروفیسر شہزاد انجم کے صدارتی خطابات کا مجموعی پیغام یہ ہے کہ ابن صفی ایک ایسے بلند خیال اور ممتاز تحریری ملکہ رکھنے والی شخصیت کا نام ہے جس سے نصف صدی کی نسلیں نہ صرف مستفید ہوتی رہی ہیں بلکہ اردو کی ترویج اور ترقی میں بھی ابن صفی کی تحریریں ایک نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے الفاظ کے رموز و کنایات سے اپنے قاری کو نفسیات اور سماجی رشتوں اور گزرتی زندگی کے حالات سے سبق آموزی کے ہم آغوش کرکے واقف کرانے کے بہت سارے ہنر آزمائے اور ان میں کامیاب ہوئے۔
سہ روزہ قومی سمینار کا اختتامی اجلاس آج پانج بجے ایڈورڈ سعید ہال، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا جس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی جناب سید شاہد مہدی، وائس چیئرمین آئی سی سی آر تشریف فرما تھے۔ اس اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر ایس۔ ایم۔ راشد، پرووائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض سکریٹری اردو اکادمی جناب انیس اعظمی نے انجام دیے جب کہ پروفیسر خالد محمود، صدر شعبۂ اردو نے سمینار کے تمام اجلاس کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی کامیابی پر روشنی ڈالی اور آئے ہوئے مشوروں کو اپناتے ہوئے مستقبل میں حکمتِ عملی اختیار کرنے کا اعادہ ظاہر کیا اور پروفیسر عبدالحق، کنوینر سمینار کمیٹی اردو اکادمی نے کہا کہ سمینار کے شرکا کے اس اصرار کو اردو اکادمی زیرِغور رکھے گی کہ جلد از جلد ابن صفی کی اہم تحریروں کو سامنے لایاجائے۔

Friday, December 14, 2012


کوئی بھی زبان صرف کلاسیکی ادب کے ذریعے قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس میں عوامی ادب نہ شامل ہو : شمیم حنفی

ابن صفی کی تحریروں سے میں نے اردو زبان سیکھی: نجیب جنگ

شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو اکادمی دہلی کے اشتراک سے ’’ ابن صفی: شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ قومی سمینارکا افتتاح


دائیں سے: پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر خالد محمود، جناب جتن پرساد (زیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند) جناب نجیب جنگ (شیخ الجامعہ) پروفیسر شمیم حنفی، جناب انیس اعظمی


نئی دہلی/۱۴؍دسمبر ۲۰۱۲

آرٹ اور ادب میں عوامی روایت شامل نہ ہو تو اظہار کے نئے پیرایے وجود میں نہیں آسکیں گے۔ کوئی بھی زبان صرف کلاسیکی ادب کے ذریعے قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس میں عوامی ادب نہ شامل ہو۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایمریٹس شمیم حنفی نے سہ روزہ قومی سمینارکے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابن صفی کی شخصیت اور فن پر سمینار منعقد کرنا ایک جرأت مندانہ ا قدام ہے۔ اس طرح ابن صفی کے تخلیقی ادب کا احیا ہو رہا ہے ۔ ابن صفی نے تفریحی ادب کا جو معیار پیش کیا وہ بہت غیر معمولی ہے۔ اس سمینار سے ایک بیریر ٹوٹے گا اوراب مقبول ادب پر بحث کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ابن صفی کی تحریرو ں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ۱۹۵۲ میں ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ شائع ہوکر مقبول ہوا تو ان کے ناولوں کو پڑھنے کے لیے لوگوں نے اردو سیکھنا شروع کر دیا۔

جناب نجیب جنگ نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ابن صفی کی تحریروں سے میں نے اردو زبان سیکھی اور ابن صفی کی تحریریں ہمارے لیے زاد سفر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تقسیم کی وجہ سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جو ڑ دیا گیا لیکن اب وہ حالات نہیں رہے بلکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر بھی کئی اقدمات کیے جار ہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند جناب جتن پرساد افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہوئے اوراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ کے بارے میں بچپن سے سنتا چلاآرہا ہوں اور آج یہاں کی تہذیب وثقافت اور تعلیمی ماحول کو دیکھ کر بڑی خوشی محسو س ہورہی ہے۔ انھوں مزید کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان جگہوں پر جاؤں جہاں نئی فکر کے چشمے پھوٹتے ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ان میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی تہذیب کی صحیح عکاسی مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تہذیب میں صاف نظر آتی ہے جہاں جمہوری نظریے کو اولیت حاصل ہے۔ پروفیسر عبدالحق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے ادیب کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اس کی تحریروں کو زندہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کے تخلیقی سرمائے کو عوامی او ر مقبول ادب کہہ کر فراموش کردیا گیا تھا۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو کا رشتہ ہمیشہ سے چولی دامن کا رہا ہے۔ ۱۹۷۴ میں شعبہ اردو کے قیام سے قبل بھی یہاں اردو تہذیب نمایاں تھی اور شعبہ اردو کے قیام کے بعد بھی فروغ اردوکی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتارہا ہے ۔ یونیورسٹی کے موجودہ شیخ الجامعہ جناب نجیب جنگ کا عہد اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز عہد ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ شعبہ اردو کے لیے ٹیگور پروجیکٹ کی حصولیابی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ افتتاحی اجلاس میں نظامت کے فرائض پروفیسر شہپر رسول نے انجام دیے اور کلمات تشکر اردو ادکادمی کے سکریٹری انیس اعظمی نے ادا کیے جبکہ ریسرچ اسکالر شاہ نواز فیاض نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر نائب شیخ الجامعہ، رجسٹرار، اساتذہ، ریسرچ اسکالرز ،طلبا و طالبا ت کے علاوہ جامعہ کے معزز عہدیداران بھی شریک ہوئے۔

Saturday, December 1, 2012


ٹیگور کے تراجم اردو اور بنگلہ زبان و تہذیب کے لیے اہم سنگ میل 

جامعہ میں ٹیگور ریسرچ کمیٹی کی میٹنگ میں دس کتابوں کی اشاعت پر اتفاق رائے




(تصویر: شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ سرچ کمیٹی کی میٹنگ میں اردو اور بنگالی زبان وادب کے شرکا اور ریسرچ اسکالر ) 


نئی دہلی، یکم دسمبر ۲۰۱۲
رابندر ناتھ ٹیگور کے تراجم اردو اور بنگلہ زبان و تہذیب کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ایک عرصے تک ٹیگور پر ایک دھند طاری تھی ۔ آزادی سے قبل ٹیگور کے تراجم پر خاص توجہ دی گئی تھی لیکن اس کے بعد ایک عرصے تک ٹیگور اور ان کے تراجم کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بلاشبہ بیسویں صدی کے ہندوستان میں جو سب سے مکمل شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت ہے۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ ٹیگور ریسرچ کمیٹی کی میٹنگ میں ادیبوں اور دانشوروں نے کیا۔ اس میٹنگ کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر نیبندو سین اور پروفیسر عتیق اللہ نے کی۔ جس میں پروفیسر خالد محمود، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر منشی محمد یونس، ڈاکٹر شمرسٹا سین، پروفیسر نندیتا بسو، ڈاکٹر گوبند پرشاد، پروفیسر شہپر رسول، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر انترا چودھری ، ڈاکٹر عبد الرشید، ڈاکٹر کوثر صدیقی اور ڈاکٹر خالد مبشر نے شرکت کی۔ پروگرام کی نظامت پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ سبھی مہمانوں کا استقبال صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے کیا۔ اس موقع پر ا نھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو اور بنگلہ زبان و ادب کی اہم شخصیات کی آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیگورکے حوالے سے یہ دونوں زبانیں اور تہذیبیں آپس میں گھل مل رہی ہیں۔ اردو میں بنگلہ کے تراجم ابتدا سے ہی کثرت سے ہوئے ہیں۔ اردو کے بہت سارے ایسے ادیب ہیں جو بنگلہ زبان و ادب سے بخوبی واقف ہیں۔ جامعہ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وزارت ثقافت حکومت ہند نے یہ پروجیکٹ اسے عطا کیا۔
پروفیسر شمیم حنفی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹیگور کی دس کتابوں کے ترجمے کے لیے ایک خاکہ پیش کیا جس میں ٹیگور کی داستان حیات، خود نوشت، سفرنامہ، شاعری کا انتخاب، کہانیوں کا انتخاب، ڈراموں کا انتخاب، ٹیگور اور فنون لطیفہ، بچوں کا ادب، ٹیگور کے مضامین، ٹیگور اور ان کے معاصرین اور ٹیگور پر اردو میں لکھے گئے مضامین کے انتحاب پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مسلمانوں کا شانتی نکیتن کہا جاتا تھا۔ آج اس ادارے کے تحت اگر یہ کام سلیقے سے مکمل ہوجاتا ہے تو ایک تاریخ ثبت ہوگی۔ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے گروپ بنائے جائیں اور ٹیگور کی ہر کتاب کے انتخاب سے پہلے ایک مکمل مضمون بھی اس حوالے سے کتاب میں شامل کیا جائے۔پروفیسر عتیق اللہ نے ٹیگور کے ان مضامین کے انتخاب پر زرو دیا جو مختلف رسائل مثلاًعالم گیر، مخزن، دلگداز، زمانہ، ماہ نو وغیرہ میں شامل ہیں ۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ پروجیکٹ ٹیگور کی بازیافت کے لیے ایک مستحکم قدم ہے۔ آزادی کے بعد ٹیگور کے حوالے سے اندر کی روح یا آواز سے کم تراجم ہوئے ہیں۔ ٹیگور ایک رشی منی تھے جو زندگی بھر لکھتے رہے۔ انھوں نے مذہب، آرٹ، کلچر، فنون لطیفہ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے ۔ اس حوالے سے بھی اور ان کے انٹرویوز کے تراجم کے حوالے سے بھی کتاب کی اشاعت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ٹیگور کے مضمون ’’کرائسس آف سیوی لائیزیشن‘‘ کے ترجمے پر بھی اصرار کیا۔ بنگالی زبان و ادب کے مشہور ادیب اور استاد پروفیسر نیبندو سین نے ٹیگور کی کئی کتابوں بالخصوص ان کی نثری تصنیفات ، ان کے محتلف موضوعات پر مشتمل مضامین اور بچوں کے لیے لکھی گئی تحریروں کی اشاعت کو لازمی قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے فرمایا کہ پروفیسر محمد مجیب کے تین ڈرامے اور عابد حسین کی ٹیگور پر کتاب کی دوبارہ اشاعت اس پروجیکٹ کی جانب سے کی جانی چاہیے۔ پروفیسر نندیتا بسو نے ٹیگور کی تصنیفات اور تخلیقات کی نئے تراجم پر اصرار کیا۔ مشرف عالم ذوقی نے ٹیگور کی دس کتابوں پر مشتمل ایک کلیات کی ایک اشاعت اور ٹیگور کی کہانیوں پر مشتمل ای بُک کو تیار کرنے پر زور یا۔ انھوں نے ٹیگو رکی موسیقی اور مصوری کے حوالے سے بھی کی ایک کتاب کی اشاعت پر اصرار کیا۔ڈاکٹر گوبند پرشاد نے کہا کہ ٹیگو ر کے ہندی میں کافی تراجم مہیا ہیں۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کا ترجمہ ہندی سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر شرمسٹھا سین نے ٹیگور کے ایران کے سفرنامے کو بے حد اہم قرار دیتے ہوئے اس پروجیکٹ کے تحت اس کی اشاعت پر زور دیا۔ ڈاکٹر منشی محمد یونس نے ٹیگور کے ناول ، ڈرامے، گانے، کہانیاں، مضامین، خود نوشت وغیرہ کی ایک تفصیلی فہرست پیش کی اور ان کے حوالے سے مدلل گفتگو کی۔ تمام مباحث کی روشنی میں اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ ٹیگور کی دس کتابیں مختلف موضوعات پر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شائع ہونی چاہیے۔ بلا شبہ یہ قدم ٹیگور شناسی کے حوالے سے ایک تاریخی یادگار اور اہم ثابت ہوگا۔ جس سے ہندوستانی ادب و تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پروگرام کے آخر میں شعبہ کے استاد ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے اردو اور بنگلہ زبانوں کے سبھی ادیبوں ، ریسرچ اسکالروں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اردو اخبارات و رسائل کے مدیران کا بھی شکریہ ادا کیا ۔