Sunday, January 16, 2011

ایک چراغ اور گل ہوا



علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی معروف شخصیت شعبہ انگریزی کی سابق پروفیسر اور منفرد شاعرہ،ادیبہ محترمہ زاہد ہ زیدی اب اس دنیامیں نہیں رہیں
اردو اور انگریزی میں متعدد شعری مجموعوں اورتنقیدی مضمامیں کے مجموعوں ،ناولوںاور ڈراموں کی تخلیق کار اپنا ادبی سرمایہ اردو ادب کے سپرد کر کے رخصت ہوگیں ۔ ان کو بہت سے ادبی ایوارڈ بھی ملے تھے۔ میرا ان سے بچپن سے ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ میں ان کو زاہدہ خالہ کہتی تھی، ان سے میں نےشاعری ،ادب اور ڈرامے کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ میری یادوں کے البم میں ان کی ان گنت تصاویر ہیں۔ مشاعروں میں نظمیںسناتی، علی گڑھ یونیورسٹی کے ویسٹرں ڈرامہ کلب کےلیے ڈرامے ڈایکیرٹ کرتی۔ اپنے شاگردوں سے محبت کرتی ۔ بےایمانیوں اور بد عنوانیوں پر غصہ ہوتی ہویی اور اپنے چھوٹے سے خوش ذوقی سے سجے ہوئے فلیٹ میں اپنی کتابوں ، اور رسالوں میں گھری ہویی
وہ میری امی_سیدہ فرخت کے بچپن کی دوست تھین، میرے سارے بہن بھاییوں سے خآص تعلق خاظر تھا]میری شاعری اور افسانہ نگاری پر انکے بے لاگ تبصرے مجھے بہت عزیز ہیں۔ جب انھون نے میر ے افسانوں کے مجموعے آنگن جب پردیس ہوا کی دل کھول کر تعریف کی تو میں بہت خوش ہویی تھی کیونکہ زاہد ہ خالہ یوں ہی تعریف نہین کرتی تھین

اگرکہا جاِیے کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی اد ب تھا تو غلظ نہ ہوگا
انھون نے چیخوف کے ڈراموں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ اور انکو علی گڑھ میں اسٹیج بھی کیا تھا
جب ویسٹرن ڈرامہ کلب کی طرف سے وہ انگریزی یا دوسری زبانوں سے ترجمہ کردہ ڈرامے یونیورسٹی کے کینڈی ہال میں اسٹیج کرنا چاہیی تھین تو یونیورسٹی کے ڈرامہ کلب والوں کو اعتراض ہوتا تھای کہ ویسڑن ڈرامہ کلب کو صرف انگریزی مین ڈرامے کرنے کی اجازت ہے۔ اردو کے ڈرامے تو دوسرا ڈرامہ کلب ہی کرسکتا ہے
کیی ڈرامے انھون نے خود اپنے گھر مین اورایک ہمارے گھر "فرحت کدہ" میں اسٹیج کیا تھا
ان ڈراموں کے سارے اخراجات وہ خود ہی اٹھاتی تھین
زاہدہ خالہ کے ساتھ ایک دور ختم ہوگیا۔ ہماری یادوں میں وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی اور اپنی منعدد کتابوں میں زندہ ہیں۔ان کی ادبی خدمات پر تو ایک پورا ایک مضمون درکارہے ۔اس وقت تو قلم برداشتہ انکی یاد میں کچھ بے ربط سی باتیں ہی ممکن ہیں
آج وہ اس وقت علی گڑھ میں سپرد خاک ہوگیی ہوں گی۔ ان کی ایک بہت پرانی غزل کا ایک شعر مجھے بہت پسند ہے جوانکے اولین مجموعہ کلا۔ "زہر حیات" کے آخری صفحے پر ہے
سنا رہی ہیں وفا کی راہیں شکست پرواز کا فسانہ
کہ دور تک وادیء طلب میں پڑے ہیں ہر سمت خواب ٹوٹے

No comments:

Post a Comment