Saturday, December 1, 2012


ٹیگور کے تراجم اردو اور بنگلہ زبان و تہذیب کے لیے اہم سنگ میل 

جامعہ میں ٹیگور ریسرچ کمیٹی کی میٹنگ میں دس کتابوں کی اشاعت پر اتفاق رائے




(تصویر: شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ سرچ کمیٹی کی میٹنگ میں اردو اور بنگالی زبان وادب کے شرکا اور ریسرچ اسکالر ) 


نئی دہلی، یکم دسمبر ۲۰۱۲
رابندر ناتھ ٹیگور کے تراجم اردو اور بنگلہ زبان و تہذیب کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ایک عرصے تک ٹیگور پر ایک دھند طاری تھی ۔ آزادی سے قبل ٹیگور کے تراجم پر خاص توجہ دی گئی تھی لیکن اس کے بعد ایک عرصے تک ٹیگور اور ان کے تراجم کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بلاشبہ بیسویں صدی کے ہندوستان میں جو سب سے مکمل شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ رابندر ناتھ ٹیگور کی شخصیت ہے۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقدہ ٹیگور ریسرچ کمیٹی کی میٹنگ میں ادیبوں اور دانشوروں نے کیا۔ اس میٹنگ کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر نیبندو سین اور پروفیسر عتیق اللہ نے کی۔ جس میں پروفیسر خالد محمود، مشرف عالم ذوقی، ڈاکٹر منشی محمد یونس، ڈاکٹر شمرسٹا سین، پروفیسر نندیتا بسو، ڈاکٹر گوبند پرشاد، پروفیسر شہپر رسول، ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر انترا چودھری ، ڈاکٹر عبد الرشید، ڈاکٹر کوثر صدیقی اور ڈاکٹر خالد مبشر نے شرکت کی۔ پروگرام کی نظامت پروجیکٹ کوآرڈی نیٹر پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ سبھی مہمانوں کا استقبال صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے کیا۔ اس موقع پر ا نھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو اور بنگلہ زبان و ادب کی اہم شخصیات کی آمد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیگورکے حوالے سے یہ دونوں زبانیں اور تہذیبیں آپس میں گھل مل رہی ہیں۔ اردو میں بنگلہ کے تراجم ابتدا سے ہی کثرت سے ہوئے ہیں۔ اردو کے بہت سارے ایسے ادیب ہیں جو بنگلہ زبان و ادب سے بخوبی واقف ہیں۔ جامعہ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ وزارت ثقافت حکومت ہند نے یہ پروجیکٹ اسے عطا کیا۔
پروفیسر شمیم حنفی نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ٹیگور کی دس کتابوں کے ترجمے کے لیے ایک خاکہ پیش کیا جس میں ٹیگور کی داستان حیات، خود نوشت، سفرنامہ، شاعری کا انتخاب، کہانیوں کا انتخاب، ڈراموں کا انتخاب، ٹیگور اور فنون لطیفہ، بچوں کا ادب، ٹیگور کے مضامین، ٹیگور اور ان کے معاصرین اور ٹیگور پر اردو میں لکھے گئے مضامین کے انتحاب پر مشتمل کتابیں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایک زمانے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کو مسلمانوں کا شانتی نکیتن کہا جاتا تھا۔ آج اس ادارے کے تحت اگر یہ کام سلیقے سے مکمل ہوجاتا ہے تو ایک تاریخ ثبت ہوگی۔ اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے گروپ بنائے جائیں اور ٹیگور کی ہر کتاب کے انتخاب سے پہلے ایک مکمل مضمون بھی اس حوالے سے کتاب میں شامل کیا جائے۔پروفیسر عتیق اللہ نے ٹیگور کے ان مضامین کے انتخاب پر زرو دیا جو مختلف رسائل مثلاًعالم گیر، مخزن، دلگداز، زمانہ، ماہ نو وغیرہ میں شامل ہیں ۔ انھوں نے فرمایا کہ یہ پروجیکٹ ٹیگور کی بازیافت کے لیے ایک مستحکم قدم ہے۔ آزادی کے بعد ٹیگور کے حوالے سے اندر کی روح یا آواز سے کم تراجم ہوئے ہیں۔ ٹیگور ایک رشی منی تھے جو زندگی بھر لکھتے رہے۔ انھوں نے مذہب، آرٹ، کلچر، فنون لطیفہ پر بھی بہت کچھ لکھا ہے ۔ اس حوالے سے بھی اور ان کے انٹرویوز کے تراجم کے حوالے سے بھی کتاب کی اشاعت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ٹیگور کے مضمون ’’کرائسس آف سیوی لائیزیشن‘‘ کے ترجمے پر بھی اصرار کیا۔ بنگالی زبان و ادب کے مشہور ادیب اور استاد پروفیسر نیبندو سین نے ٹیگور کی کئی کتابوں بالخصوص ان کی نثری تصنیفات ، ان کے محتلف موضوعات پر مشتمل مضامین اور بچوں کے لیے لکھی گئی تحریروں کی اشاعت کو لازمی قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے فرمایا کہ پروفیسر محمد مجیب کے تین ڈرامے اور عابد حسین کی ٹیگور پر کتاب کی دوبارہ اشاعت اس پروجیکٹ کی جانب سے کی جانی چاہیے۔ پروفیسر نندیتا بسو نے ٹیگور کی تصنیفات اور تخلیقات کی نئے تراجم پر اصرار کیا۔ مشرف عالم ذوقی نے ٹیگور کی دس کتابوں پر مشتمل ایک کلیات کی ایک اشاعت اور ٹیگور کی کہانیوں پر مشتمل ای بُک کو تیار کرنے پر زور یا۔ انھوں نے ٹیگو رکی موسیقی اور مصوری کے حوالے سے بھی کی ایک کتاب کی اشاعت پر اصرار کیا۔ڈاکٹر گوبند پرشاد نے کہا کہ ٹیگو ر کے ہندی میں کافی تراجم مہیا ہیں۔ ان کے ناولوں اور افسانوں کا ترجمہ ہندی سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر شرمسٹھا سین نے ٹیگور کے ایران کے سفرنامے کو بے حد اہم قرار دیتے ہوئے اس پروجیکٹ کے تحت اس کی اشاعت پر زور دیا۔ ڈاکٹر منشی محمد یونس نے ٹیگور کے ناول ، ڈرامے، گانے، کہانیاں، مضامین، خود نوشت وغیرہ کی ایک تفصیلی فہرست پیش کی اور ان کے حوالے سے مدلل گفتگو کی۔ تمام مباحث کی روشنی میں اتفاق رائے سے یہ طے پایا کہ ٹیگور کی دس کتابیں مختلف موضوعات پر شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شائع ہونی چاہیے۔ بلا شبہ یہ قدم ٹیگور شناسی کے حوالے سے ایک تاریخی یادگار اور اہم ثابت ہوگا۔ جس سے ہندوستانی ادب و تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پروگرام کے آخر میں شعبہ کے استاد ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے اردو اور بنگلہ زبانوں کے سبھی ادیبوں ، ریسرچ اسکالروں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اردو اخبارات و رسائل کے مدیران کا بھی شکریہ ادا کیا ۔ 

No comments:

Post a Comment