Wednesday, April 6, 2016

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’’کلیا ت تمکین امروہوی ‘‘کا اجرا

تمکین امروہوی فن کے اصولوں اور رائج طریقوں سے واقف ایک قادر الکلام اور پُر گو شاعر تھے
شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’’کلیا ت تمکین امروہوی ‘‘کے اجرا کے موقع پر مقررین کا اظہار خیال

 6 april 2016
تحقیق بے حد دقت طلب کام ہے اور وہ بھی کسی کلیات کی تحقیق و تدوین کا بیڑا اٹھانا ایک مشکل امر ہے۔ سید علی ذہین نقوی نے اپنے پرداد اکا کلام ’’کلیات تمکین امروہوی‘‘ شائع کیا جس کے لیے وہ یقیناًمبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن کلیات میں کئی ایسی غلطیاں موجود ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ’’کلیات تمکین امروہوی‘‘ کے اجرا کے موقع پر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے بطور مہمان اعزازی جلسے میں کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ اردو کے فروغ میں مدارس اور فلموں کے علاوہ مرثیوں کا اہم حصہ ہے۔ مرثیے نے ادبی و تہذیبی زبان کو فروغ دیا۔ تمکین امروہوی ایک قادر الکلام اور پرگو شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ایک بہاؤ ہے۔ انھوں تمام اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن ہر جگہ مرثیے کا خیال اور دامن نہیں چھوڑا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمکین کا ایک مونوگراف شائع کیا جائے جس میں ان کے منتخب کلام بھی شامل ہوں۔ جلسے کی صدارت کرتے ہوئے معروف تاریخ داں اور اسکالر پروفیسر سید محمد عزیز الدین حسین نے فرمایا کہ زمینداری کے دور میں عام طور پر لوگ علم سے دور ہو چکے تھے۔ لیکن تمکین امروہوی نے نہایت ہی عمدہ علمی و ادبی کام کیا۔ تمکین کا رشتہ خالصتاً علم سے تھا۔ عزیز الدین حسین نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ جہاں صوفی تحریک تھی وہاں علمی کام ہوئے۔ صوفی خانقاہوں کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف اردو اور فارسی کو فروغ دیا بلکہ مقامی زبانوں کو بھی عروج دیا۔ مرثیے پر تصوف کا گہرا اثر ہے۔ اسلام کی تاریخ پر جتنا کام ہندوستان میں چودہویں صدی میں ہوا وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا۔ عالم اسلام پر ہندوستان کا یہ بڑا احسان ہے ۔انھوں نے ’’ کلیات تمکین امروہوی‘‘ کوایک اہم شعری کارنامہ قرار دیا۔
’’کلیات تمکین امروہوی‘‘ کا اجرا صدر شعبہ اردو پروفیسر شہپر رسول کے دست مبارک سے ہوا۔ اس موقع پر پروفیسرشہپر رسول نے فرمایا کہ نئی نسل عموماً کلاسیکی اصناف سے واقف نہیں ہے۔ اس کلیات میں تمام ہےئتیں اور اصناف موجود ہیں جس کے نتیجے میں یہ کتاب بے حد اہم ہے۔ کلاسیکی اصناف کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سید علی ذہین نقوی نے اپنے پردادا کے کلام کو شائع کیا یہ بڑا کارنامہ ہے۔ اپنے بزرگوں کو یاد کرنا بے حد اہم ہے۔ ابتدا میں کلیات تمکین امروہوی کے مدون سید علی ذہین نقوی نے کلیات تمکین امروہوی کے مشمولات اور خصوصیات پر مفصل روشنی ڈالی۔پروفیسر وہاج الدین علوی سابق صدر شعبہ اردو نے فرمایا کہ تمکین امروہوی کے زمانے کی فضا ایسی تھی کہ قصبات میں منقبت سلام نعت کا ماحو ل تھا۔ وہ علوم اب ہمارے گھروں سے ناپید ہوچکے ہیں اورگھر کے بزرگوں سے عقیدت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ سید ذہین علی نقوی نے اپنے پرداد اکا کلام سنبھال کر رکھا اور اسے شائع کیا۔ یہ علم و ادب سے ان کے گہرے شغف کی بین مثال ہے۔ پروفیسر عراق رضا زیدی صدر شعبہ فارسی نے فرمایا کہ تمکین کو تاریخ گوئی پر بے حد دسترس حاصل تھی۔ کلاسیکی شاعری کو پڑھنے کے لیے فارسی کی شد بد ضروری ہے کلیات میں چند غلطیاں تو ہیں حاشیے میں بھی غلطیاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کلیات کی نظر ثانی کی جائے۔ پروفیسر توقیر احمد خاں سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی نے فرمایا کہ سید علی ذہین نقوی نے اپنے بزرگوں کی علمی وراثت کو محفوط رکھا اور اسے شائع کیا۔ تمکین امروہوی نے محتلف اصناف پر طبع آزمائی کی۔ شاعری انھیں ورثے میں ملی تھی ۔ ان کی شاعری کا مقصد آخرت کو سنوارنا بھی تھا۔ اس موقع پر پروفیسر احمد محفوظ نے فرمایا کہ ہمیں اپنی پوری ادبی روایت کا احترام کرنا چاہیے۔ تمکین وہ ہیں جنھوں نے انیس کو انیس اور دبیر کو دبیر بنانے کی راہ ہموار کی۔ وہ شاعری کے فن سے بخوبی واقف تھے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے فرمایا کہ شعبہ اردو جامعہ کا کلاسیکی شاعری سے گہرا رشتہ ہے اور موجودہ شعبہ کا تحقیقی پروجیکٹ کلاسیکی شاعری سے متعلق ہے۔ اس شاعری کو نئی نسل بھولتی جارہی ہے۔ سید علی ذہین نقوی مبارکباد کے مستحق ہیں جنھوں نے ایسا سرمایہ جو غیاب میں تھا اسے منظر عام پر لائے اور اس طری کی قدیم اصناف کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی نے کلیات تمکین امروہوی پر مفصل روشنی ڈالی اور فرمایا کہ تمکین امروہوی کے یہاں کلاسیکی شاعری کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ تمکین نے انیس و دبیر دونوں کے رنگ سخن کو آزمایا۔ جلسے کی نظامت پروفیسر شہزاد انجم نے کی۔ پروفیسر شہزاد انجم نے سید علی ذہین نقوی کا تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ سید علی ذہین نقوی شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر رہے ہیں۔ جنھوں نے ’’ہندوستانی شعریات کی روشنی میں اردو مرثیوں کا مطالعہ‘‘ کے موضوع پر اپنا علمی کام اس زمانے میں مکمل کیا تھا لیکن اس کتاب کی اشاعت اب عمل میں آئی ہے۔ مہمانوں کا شکریہ شعبہ کے ریسرچ اسکالر سلمان فیصل نے ادا کیا۔ جامعہ کی روایت کے مطابق جلسے کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جسے حافظ عبدالکریم رضوان نے پیش کیا اس پروگرام میں شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر خالد جاوید، ڈاکٹر ندیم احمد، ڈاکٹر عمران احمد عندلیب، ڈاکٹر سرورالہدی، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد کے علاوہ شعبہ فارسی کے استاذ پروفیسر عبدالحلیم، ڈاکٹر کلیم اصغر اور کئی دیگر شخصیات موجود تھیں۔ ان کے علاوہ اس جلسے میں شعبہ اردو کے گیسٹ فیکلٹیز، ریسرچ اسکالرز اور طلبا بھی موجود تھے۔

(تصویر میں دائیں سے بائیں: ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی،پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر سید عزیز الدین حسین، پروفیسر وہاج الدین علوی، پروفیسر شہپر رسول اور جناب سید علی ذہین نقوی)

No comments:

Post a Comment